سب سے پہلے یہ آواز لومڑی نے سنی۔ وہ فوراً بھانپ گئی کہ ہو نہ ہو یہ گدھا ہے۔ وہ دوڑ کر گدھے کے پاس پہنچی۔ گدھے کو کیا خبر کہ بھید کھل گیا ہے۔ فوراً تیز ہو کر بولا: ’’او لومڑی! ڈرتی نہیں؟ آگے بڑھی چلی آرہی ہے۔ جانتی نہیں‘ میں شیر ہوں؟‘‘‘
جھوٹ چھپائے نہیں چھپتا
ایک گدھا جنگل میں پھر رہا تھا کہ اُس نے شیر کی کھال زمین پر پڑی پائی۔ وہ بہت خوش ہوا۔ اس نے سوچا‘ واہ! کیا اچھی چیز ملی ہے۔ اس کو اوڑھنا چاہیے۔ جنگل کا جو حیوان دیکھے گا‘ مجھے شیر ہی سمجھے گا۔ سب مجھ سے ڈریں گے اور میں جہاں چاہوں گا چرتا پھروں گا۔
یہ سوچ کر گدھے نے کھال اوڑھ لی اور لگا جنگل میں ادھر اُدھر دوڑنے۔ جانور اُسے دور ہی سے دیکھ کر بھاگ کھڑے ہوتے اور کہتے’’شیر آگیا! شیر آگیا‘‘ لومڑی بڑی ہوشیار اور سیانی ہوتی ہے‘ مگر وہ بھی دھوکے میں آگئی اور بھاگ نکلی۔
یہ دیکھ کر گدھا بہت خوش ہوا۔ دل میں کہنے لگا‘ سب کو خوب اُلُّو بنایا۔ یہ دیوانے تو مجھے بے وقوف کہا کرتے تھے اور اب خود بے وقوف بن رہے ہیں۔ گدھا خوش تھا‘ اتنا خوش کہ وہ چُپ نہ رہ سکا اورخوشی میں ڈھیچوں ڈھیچوں کرنے لگا۔
سب سے پہلے یہ آواز لومڑی نے سنی۔ وہ فوراً بھانپ گئی کہ ہو نہ ہو یہ گدھا ہے۔ وہ دوڑ کر گدھے کے پاس پہنچی۔ گدھے کو کیا خبر کہ بھید کھل گیا ہے۔ فوراً تیز ہو کر بولا: ’’او لومڑی! ڈرتی نہیں؟ آگے بڑھی چلی آرہی ہے۔ جانتی نہیں‘ میں شیر ہوں؟‘‘‘
لومڑی نے جواب دیا ’’ارے گدھے! تو سچ مچ گدھا ہے۔ اگر شیر ہی بننا تھا تو چپ رہتا۔ تیری آواز نے سارا بھانڈا پھوڑ دیا۔ جا جا اپنے آپ کو نہ بھول‘‘
جب جنگل کے دوسرے جانوروں کو پتا لگا تو سب گدھے کی بے وقوفی پر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہونے لگے اور گدھے کو سخت ذلت اٹھانا پڑی۔
بیوقوف کو نصیحت کرنے کا انجام
گرمی‘ سردی اور بارش سے بچنے کیلئے ہر جاندار کو گھر کی ضرورت ہوتی ہے۔
نیولے اور چوہے زمین میں بل بناتے ہیں‘ شہد کی مکھیاں چھتا بناتی ہیں اور انسان اپنے لیے مکان کے علاوہ اپنے پالتو جانوروں کیلئے بھی گھر بناتا ہے۔ مرغیوں کیلئے ڈربا بنایا جاتا ہے۔ گائے کیلئے چھپر کا انتظام کیا جاتا ہے۔ گھوڑوں کیلئے اصطبل بنائے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل دی ہے۔ گھر بنانے میں چرند پرند انسان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ لیکن پرندوں میں ایک پرندہ ایسا ہے جس کا گھر دیکھ کر انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ یہ پرندہ بیا ہے۔
بیا کا گھونسلا دیکھنے میں ایک خوبصورت تھیلے کی طرح ہوتا ہے۔ بیا اسے مضبوط اور باریک تنکوں سے تیار کرتا ہے۔ اس کے اندر کئی کمرے ہوتے ہیں۔ یہ گھونسلا درخت کی کسی اونچی اور مضبوط ٹہنی سے لٹکا رہتا ہے۔ سردی ہو یا گرمی‘ بارش آئے یا آندھی‘ بیے اور اس کے بچے اپنے گھونسلے میں آرام سے رہتے ہیں۔
جنگلی جانوروں میں بندر بڑا نالائق ہے‘ یہ اپنا گھر نہیں بناتا۔ درختوں کی شاخوں پر پُھدکتا پھرتا ہے اور جب آندھی یا بارش آئے تو اُس کو بڑی مشکل پیش آتی ہے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے‘ سخت سردی کے دن تھے۔ کئی دن سے برابر بارش ہورہی تھی۔ بَیا اپنے گھونسلے میں مزے سے بیٹھا اپنے بچوں کو کہانیاں سنا رہا تھا کہ اچانک درخت کی شاخوں پر کھڑبڑ کی آواز آئی۔
بَیےنے گھونسلے کے دروازے پر آکر اِدھر اُدھر جھانکا۔ کالے کالے بادل چھائے ہوئے تھے۔ بارش ہورہی تھی۔ چاروں طرف گُھپ اندھیرا تھا۔ بَیے کو کچھ نظر نہ آیا لیکن اچانک بجلی چمکی تو اس نے دیکھا کہ ایک بندر درخت کے پتوں میں اپنے آپ کو چھپانے کی کوشش کررہا ہے۔ اُس کا سارا جسم بھیگا ہوا تھا اور وہ تھر تھر کانپ رہا تھا۔
بیے کو بندر پر بہت ترس آیا۔ وہ چاہتا تو تھا کہ اُس کو پناہ دے‘ لیکن اُس کے گھر میں جگہ نہ تھی۔ بَیا ننھا سا جانور ہے۔ اس کا گھونسلا کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو‘ بندر اُس کے اندر نہیں آسکتا۔ بَیے کو بندر کو بے وقوفی پر بھی غصہ آرہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اگر اس نالائق نے اپنا گھر بنا لیا ہوتا تو آج یوں پریشان نہ ہوتا۔ جب گھر بنانے کے دن تھے تو اُس وقت تو یہ درختوں کی شاخوں پر کود پھاند کرتا رہا اور اب مارے سردی کے مرا جارہا ہے‘ بیے نے بندر سے کہا: ’’ارے بندر‘ تیرے ہاتھ پاؤں تو انسانوں کے سے ہیں‘ جسم کی بناوٹ بھی انسانوں سے ملتی جلتی ہے تو چاہے تو اچھا سا گھر بناسکتا ہے۔ چار مہینے پہلے سردی کے دن آئے تھے تو نے ان دنوں بھی اپنے لیے گھرکا انتظام نہ کیا؟‘‘
بندرکو بَیے کی یہ بات بہت بُری لگی۔ وہ غصے سے بولا ’’ تم کون ہوتے ہو مجھے نصیحت کرنے والے؟ تمہاری اوقات ہی کیا ہے۔ ایک تھپڑ دُوں تو دوسرا سانس لینا بھی نصیب نہ ہو‘‘
بَیا بولا ’’ بھائی‘ تم تو خواہ مخواہ جھگڑا کرتے ہو۔ میں تو تمہارے ہی بھلے کی کہہ رہا تھا۔ نصیحت کا بُرا نہیں ماننا چاہیے۔‘‘
بندر غصے میں آپے سے باہر ہوگیا۔ کہنے لگا ’’تیری یہ مجال کہ مجھے نصیحت کرے! ٹھہر جا! ابھی مزا چکھاتا ہوں‘‘
یہ کہہ کر بندر نے بَیے کے گھونسلے کو نوچ کھسوٹ کر نیچے پھینک دیا اب بَیا اور اُس کے بچے بارش میں بھیگ رہے تھے اور رو رہے تھے۔ اُن کاگھونسلا درخت کے نیچے بکھرا پڑا تھا۔
برابر والے درخت پر ایک اور بَیے کا گھونسلا تھا۔ اُس نے پڑوسی بَیے کے بچوں کی چیخیں سُنیں تو جلدی سے باہر نکلا اور پوچھا ’’کیا بات ہے؟ بچے کیوں رو رہے ہیں؟‘‘
بَیے نے سارا قصہ کہہ سنایا۔ پڑوسی بَیے نے انہیں اپنے گھونسلے میں بُلا لیا اور کہا:
سیکھ تو وا کو دیجیے‘ جاکو سیکھا سُہائے
سیکھ نہ دیجے باندرا‘ جو بَیے کا گھر جائے
یعنی نصیحت اُس کوکرنی چاہیے جو نصیحت پر کان دھرے۔ تم نے دیکھ لیا کہ بندر کو نصیحت کرنے سے تمہارا اپنا گھر اُجڑ گیا۔
اس طرح یہ ایک کہاوت بن گئی جس کا مطلب یہ ہے کہ بے وقوف شخص کو نصیحت نہیں کرنی چاہیے۔ وہ نصیحت کرنے والے کو اپنا دشمن سمجھتا ہے اور اُسے نقصان پہنچاتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں